Letter 1: The Truth About Grief
My Beloved Allah,
People write letters to their loved ones. Allow me the liberty to write to You today. May be someone somewhere is in dire need to read one of these letters. Allow me to pour my heart here.
Alhumdullilah for the countless blessings You have given us without asking. I fall short of the ability to even recognize the entirety of Your favor upon us.
But we are thankless.
There is grief and loss attached to each one of us. But what they don’t know, is that it is a call from You.
To someone who just lost a parent or a child, I might sound delusional. To someone who is striving to make ends meet, I might sound crazy. But when someone in grief calls out to You, does it really stay a loss?
When I think about it, I think all of this is planned so perfectly: Our fall from the heavens to the earth. Us, trapped in our desires. Desires that become obsession. And then, failure.
You say in the Quran, “But you cannot will ˹to do so˺, except by the Will of Allah, the Lord of all worlds.” (Surah Takwir, ayat 29)
When I thought about it on a surface level, I didn’t get it. Why would You give me an obsession of something and then keep it away from me?
I now understand it: had my obsession not been strong enough and the failure not been painful enough, I wouldn’t have found You. At the time, it hurt. But had it not hurt, it wouldn’t have brought me here. I needed the jolt.
You are Al Ghani and it wouldn’t matter one bit to You whether I returned to You or not. But You love me and want me back home. So You call me.
First by filling my arms with blessings, then sometimes by gifting me what I wish for, then You sometimes send reminders. And sometimes, through pain. Like a voltage shock.
Someone asked me how life would be if I got that one thing that caused me so much pain.
I told them how I would never let go of that pain because I found something far greater than what I had wished for. I found You.
May be I am finally healing. Alhumdullilah.
To be continued…
میرے پیارے اللہ
لوگ عموما اپنے عزیزوں کو خطوط لکھتے ہیں۔ میں آج ایک خط آپ کے نام لکھنا چاہوں گی۔ ہو سکتا ہے کہ کہیں پر، کسی کو ایسا ہی ایک خط پڑھتے کی کتنی ضرورت ہو۔ شاید یہ خط کسی کے احساسات اور جذبات کو الفاظ دے سکے۔
الحمدللہ، ان تمام لاتعداد اور ان گنت نعمتوں کے لئے، جو آپ نے ہم جیسے خطاکاروں کو بنا مانگے ہی عطا کر دیں۔ آپ کی مہربانیوں کا شمار کرنے اور آپ کا شکر ادا کرنے کے لئے مجھے اپنے پاس موجود الفاظ بےحد محدود اور بے وقعت محسوس ہو رہے ہیں۔
ہم انسان بھی کس قدر ناشکرے ہیں۔
ہم سبھی کو زندگی میں کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں، غموں، پریشانیوں اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ہم بیشتر ایسے مواقع پر اس بات کا ادراک نہیں کرتے کہ یہ دراصل آپ کی طرف سے ایک اشارہ ہے، ایک موقع ہے، ایک بلاوا ہے۔
یہ سب کسی ایسے شخص کے لئے سمجھنا شاید اتنا آسان نہ ہو جس نے کوئی تازہ صدمہ برداشت کیا ہو، کسی اپنے کو کھو دینے کا دکھ اٹھایا ہو، یا اپنے انتہائی محدود ذرائع کے ساتھ زندگی کا مقابلہ کر رہا ہو۔ لیکن جب کوئی تہی دامن شخص، پریشانی کی حالت میں آپ کو پکارنا سیکھ لیتا ہے، کیا واقعی اس کے ہاتھ خالی رہتے ہیں؟
میں جب بھی اس چیز پر غور کرتی ہوں، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ہمارے لئے کتنے زبردست طریقے سے سوچا گیا ہے۔ ہمارا جنت سے زمین پر آنا، ہمارا اپنی خواہشات میں جکڑا جانا، خواہشات کا بڑھتے بڑھتے جنون بن جانا، اور آخر میں کسی نہ کسی مرحلے پر پہنچ کر ناکامی کا سامنا کرنا۔
آپ نے قرآن میں فرمایا:
اور تم کچھ چاہ بھی نہیں سکتے اگر اللہ رب العالمین نہ چاہے۔ القرآن 81:29
بظاہر اس کو پڑھ کے اصل معنی سمجھ میں نہیں آتے۔ ہمیں کسی نہ کسی چیز کا دیوانہ بنا دینا، اور پھر ہمیں اس سے دور رکھنا۔ آپ ایسا کیوں کریں گے۔
لیکن اب شاید میں اس کو کچھ کچھ سمجھ سکتی ہوں۔ اگر میرے جنون میں وہ شدت نہ ہوتی، اور نتیجتاً میری ناکامی میں وہ تکلیف نہ ہوتی، تو شاید میں کبھی آپ تک نہ پہنچ سکتی۔ یہ وہ جھٹکا تھا جس کا لگنا میرے لئے بہت ضروری تھا۔
آپ الغنی ہیں، اور آپ کو کوئی بھی فرق نہ پڑے اگر میں آپ تک پہنچوں یا نہ پہنچوں۔ لیکن آپ وہ ہیں جو مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں، اور میری واپسی کا انتظار کرتے ہیں۔ اس لئے آپ مجھے وقتا فوقتا بلاوا بھیجتے ہیں۔
کبھی مجھے نعمتوں سے نواز کر، کبھی میری کوئی خواہش پوری کر کے، کبھی کسی دکھ اور تکلیف میں مبتلا کر کے، آپ اشارے دیتے رہتے ہیں۔
کسی نے مجھ سے پوچھا کہ کیسا ہو اگر تمہیں وہ چیز مل جائے جس کی تمہیں زندگی میں سب سے زیادہ خواہش رہی ہے؟ مجھے نہیں یاد کہ میں نے اس وقت کیا جواب دیا، لیکن آج مجھے یقین ہے کہ وہ خواہش جس کے ناتمام رہ جانے نے مجھے آپ تک پہنچا دیا، مجھے کبھی اس کے پورے نہ ہونے کی کوئی حسرت نہیں رہے گی۔
جو تکلیف مجھے میرے رب تک لے جائے، میں اس تکلیف کو تکلیف نہیں تسلیم کر سکتی۔
شکر الحمدللہ۔ مجھے بالآخر اپنے رب تک پہنچانے کے لئے۔