Mehreen Farhan

Welcome to Day 12 of the Ramzan Series 2020. We are the Hijri 1441 of the Islamic calendar.

Today we will talk about what the Quran says about valid and invalid questions. 

One of the disciplines that should come with gaining  knowledge of Deen, is to know the right questions to ask. 

Allah says in Surah Aal-Imran, ayat 7:

“He it is Who has revealed to you this perfect Book, some of its verses are definite and decisive. They are the basic root (conveying the established meanings) of the Book (- Ummal Kitâb) and other (verses) are susceptible to various interpretations. As for those in whose hearts is perversity follow (verses) that are susceptible to different interpretations, seeking (to cause) dissension and seeking an interpretation (of their own choice). But no one knows its true interpretation except Allâh, and those who are firmly grounded in knowledge. They say, `We believe in it, it is all (- the basic and decisive verses as well as the allegorical ones) from our Lord.´ And none takes heed except those endowed with pure and clear understanding.”

According to this ayat, there are two types of ayaat in the Quran: the “muhakkamaat” (definite, clear), and the “mutashaabihaat” (those that are not clear and leave room for suspicion or doubt).

Examples of Muhakkamaat include:

Ayaat about tauheed (Oneness of Allah), prayers, fasts, zakat, commandments on what to do and what not to do, limits of Allah, ayaat that talk about history of nations, sharia law, etc. 

Mutashaabihaat include ayaat that talk of “ghaib” (the unknown), for example, details about jannah and jahannum, the life of barzakh, the Throne of Allah, angels, life after death, life in the grave, etc. 

🌸 What Questions Should I be Asking:

Questions are constructive only when they either improve our deen or when they are meant to genuinely clear a confusion in a concept. 

The Quran discourages one to indulge in details of the mutashaabihaat. When questions are asked for the sake of asking, or they do not add value to your ibaadat and deen, stop and reassess what your intention of questioning really is. 

This ayat furthermore, says that only those who have a sickness in their heart will go after the mutashaabihaat ayaat. They resort to their own interpretations and hence, are misguided by that which has not been completely disclosed by Allah for us. 

when they are meant to highlight (naa’uzubillah!) weak spots (as a disbeliever would call them), 

🌸 How should a believer behave?

Lastly, this ayat also mentions a very beautiful trait of the believers. They follow the commands of Allah as dictated by the “muhakkamaat” ayaat, have faith on the ayaat that are mutashaabihaat. 

How to get started on asking the right questions? 

👉 Assess if your question is related to mutashaabihaat or muhakkamaat.

👉 Is your intention to question genuinely to know?

👉 How will your question/curiosity add value to your “aamaal” (deeds). 

May Allah make us of those who learn the “adab” of asking the right questions. May we be wise in asking that which beautifies our deeds and brings clarity to our deen. May Allah give us the patience to take the knowledge that is beneficial. 

Ameen sum ameen.

‎اس رمضان المبارک کے بارہویں روز میں خوش آمدید۔

‎آج ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ قرآن میں ان سوالوں کے متعلق کیا ہدایات دی گئی ہیں جو دین کو سیکھنے کے دوران ہمارے ذہنوں میں آتے ہیں۔ ان میں سے کون سی قسم کے سوالات مناسب، برمحل یا جائز ہیں، اور کون سے ایسے سوالات ہیں جن سے اجتناب ضروری ہے۔

‎سورہ آل عمران میں ارشاد ہوا ہے:

‎هُوَ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ عَلَيۡكَ الۡكِتٰبَ مِنۡهُ اٰيٰتٌ مُّحۡكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الۡكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ‌ؕ فَاَمَّا الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ زَيۡغٌ فَيَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَهَ مِنۡهُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَةِ وَابۡتِغَآءَ تَاۡوِيۡلِهٖ‌‌ۚؔ وَمَا يَعۡلَمُ تَاۡوِيۡلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ‌ۘ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِىۡ الۡعِلۡمِ يَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِهٖۙ كُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا‌ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوۡا الۡاَلۡبَابِ‏ ﴿۷﴾

‎وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں (اور) وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مرادِ اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مرادِ اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں دست گاہِ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقل مند ہی قبول کرتے ہیں  ﴿۷﴾

‎اس فرمانِ الہی کے مطابق قرآن حکیم میں دو طرح کی آیات ہیں۔ محکمات اور متشابہات۔

‎محکمات وہ آیات ہیں جو دین کا اصل ہیں اور جن کا بیان مطلق اور مفہوم واضح ہے۔ مثال کے طور پر وہ آیات جن میں توحید، نماز، روزے، ممنوعات کے متعلق احکامات، شریعت اور حدود کے قوانین، گزری ہوئی مختلف قوموں کے واقعات وغیرہ شامل ہیں۔

‎متشابہات وہ آیات ہیں جو بذات خود یا ان میں بیان کئیےگئے موضوعات و واقعات کے متعلق اللہ نے ایک خاص حد سے زیادہ نہیں بتایا لہذا وہ غیر واضح ہیں۔ مثال کے طور پر غیب کا علم، جنت اور جہنم کا بیان، عالمِ برزخ، عرشِ الہی، فرشتے، مرنے کے بعد کا احوال یا قبر کے معاملات وغیرہ۔

‎کون سے سوال ہیں جو برمحل، مثبت اور جائز ہیں؟

‎سوال تعمیری اور مثبت صرف اسی صورت میں ہوتے ہیں جب وہ دینی معاملات میں راہنمائی کا زریعہ بنیں یا ان کا مقصد کسی بھی علمی الجھن کو رفع کرنا ہو۔

‎قرآن میں متشابہات کی تفصیلات میں جانے کی قطعی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ اگر ہمارے سوال محض برائے سوال ہیں اور ان کے زریعے ہماری مذہبی اور دینی معلومات میں کوئی خاطر خواہ اضافہ بھی نہیں ہو رہا تو بہتر یہی ہے کہ ہم اپنے سوالوں اور ان کے پیچھے موجود مقصد پر نظر ثانی ضرور کریں۔

‎اس آیت میں مزید ارشاد ہوا ہے کہ صرف وہی لوگ جن کے دل میں کجی ہے، یعنی جو سیدھی راہ پر چلنا نہیں چاہتے یا جن کے دل سیدھے راستے کی طرف مائل نہیں ہوتے، وہی متشابہات کو کھنگالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر یا تو وہ اپنے خودساختہ معنی اخذ کر لیتے ہیں اور یا بھٹکا دئیے جاتے ہیں کیونکہ اصل مفہوم کو بہرحال، دانستہ مخفی رکھا گیا ہے۔

‎تو پھر اگر ہم کسی ایسے شخص کو، اپنی کج فہمی یا بدنیتی کے باعث، دین میں اپنے خودساختہ معنی نکال کر، دین میں (نعوزباللہ) خامی تلاش کرتے ہوئے پائیں تو ہمارا ردِؔعمل کیسا ہونا چاہئے؟

‎اس کا جواب اس آیت کے آخری حصے میں موجود ہے جس میں مومن کی شان بیان کی گئی ہے۔ وہ یہ کہ مومن محکمات میں موجود احکامات کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے متشابہات پر بھی اسی مضبوطئِ ایمان کے ساتھ یقین رکھتا ہے۔

‎پھر ہمیں اپنی اصلاح کے لئے، اپنے ذہن میں آنے والے سوالوں پر نظرثانی کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئیے؟

‎1۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا چاہئیے کہ ہمارا سوال متشابہات سے متعلق ہے یا محکمات کے بارے میں ہے؟

‎2۔ پھر یہ دیکھنا چاہئیے کہ آیا ہماری نیت خالصتاً علم میں اضافہ اور دین کو سیکھنے کی ہے؟

‎3۔ اور آخر میں یہ کہ ہمارا یہ سوال ہمارے اعمال اور اعمال نامہ پر کس طرح اثر انداز ہو گا؟

‎اللہ ہمیں دین سمجھنے سے پہلے دین کو سیکھنے کے آداب سمجھنے والا بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ ہمارے دین کے علم و ادب میں اضافہ فرمائے اور ہمیں دوسروں کی ہدایت کا وسیلہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔

‎آمین۔

[adinserter block="1"]

Editor's Pick