Welcome to Day 11 of the Ramzan Series 2020. We are the Hijri 1441 of the Islamic calendar.
We have stepped into the second ashr’aa of this Ramzan, Alhumdullilah. In this ashr’aa, we will discuss more dense concepts from the Quran.
Today’s topic is “aliff, laam, meem”.
A couple of Ramzans ago, Ustadh Nouman Ali Khan taught the tafseer of Surah Baqarah for the whole month of Ramzan and the opening lines of his first lecture has stayed with me till this day: “Come to the Quran like a beggar and it will fill you up.”
When we start learning the Quran, it is extremely important to have the right mindset. Come to it with thirst of knowledge, and it will fill your cup. Come to it in arrogance and it will make you more heedless.
The first ayat of Surah Baqarah is aliff, laam, meem.
Many have studied and tried to come up with what that means; yet we do not know because Allah has chosen to hide it from us. You may ask why Allah would start the Quran with something He has not explained? According to some ulama, one of the reasons is that when you come to the Quran, you come humbled, admitting that you will only ever learn as much as Allah chooses to tell you. And if He conceals something from you, you cannot learn it. In other words, come to the Quran like a beggar, knowing that you know nothing and Allah Azzawajjal knows everything.
This leads to a modern dilemma which we may have suffered from ourselves. Man tends to be ungrateful:
1. Whenever he achieves something or excels in a field, he attributes his knowledge and success to himself.
2. Man fails to differentiate between “naafeh ilm” (knowledge which is beneficial) and knowledge which is harmful for him. In some cases, people deny that such a classification even exists. This is a discussion for tomorrow’s topic.
Allah Azzawajall says in the Quran,
“But for the grace of Allah upon you (O Muhammad), and His mercy, a party of them had resolved to mislead you, but they will mislead only themselves and they will hurt you not at all. Allah reveals unto you the Scripture and wisdom, and teaches you that which you do not know. The grace of Allah toward you has been infinite.” ﴾Surah Nisaa, Ayat # 113﴿
Allah tells the Prophet (sallalaaho elehe waa aalihi wassallam) that all the knowledge he possesses has been but a bounty of Allah. In the Quran, when Allah address the Prophet, the message is also for us. If the Rasool sallalaaho elehe waa aalihi wassallam is told to consider all his knowledge Allah’s mercy on him, then we must know that we need to correct our thinking in this matter.
Lastly, another important etiquette of learning the Quran is asking the right questions. We will cover this topic tomorrow in shaa Allah.
May Allah make us of those who come to the Quran with the right mindset, with genuine thirst of knwledge, and may we never forget that all our abilities are in fact Allah’s mercy on us.
Ameen sum ameen.
—
اس رمضان کے گیارہویں روز میں خوش آمدید۔
الحمد للہ ہم اس رمضان کے دوسرے عشرے میں قدم رکھ چکے ہیں۔ اس عشرے میں ہماری کوشش ہو گی کہ ہم قرآن کے مزید پیچیدہ مسائل پر بات کر سکیں۔
آج کا موضوع ہے “ا ل م”۔
چند سال قبل، استاد نعمان علی خان نے ایک پورا رمضان المبارک، سورہ البقرہ کی تفسیر بیان کی۔ ان کے پہلے بیان کا ابتدائی فقرہ مجھے آج بھی یاد ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر ہم ایک سوالی بن کر قرآن کا مطالعہ کریں گے تو وہ کبھی ہمیں نامراد نہیں لوٹائے گا۔
جب ہم قرآن کو سمجھنے کا آغاز کرتے ہیں تو سب سے اہم چیز ہماری نیت اور ارادہ ہوتا ہے۔ اخلاص، یقین اور مثبت سوچ کے ساتھ علم حاصل کرنے کی نیت رکھنے والے امیدوں سے بڑھ کر پاتے ہیں۔ جبکہ لاپرواہ اور بےادب لوگوں کے ساتھ قرآن بھی ویسا ہی سلوک کرتا ہے۔
سورہ البقرہ کی پہلی آیت
ہے ا ل م
اس آیت کا مطلب سمجھنے کے لئے بہت سے لوگوں نے بہت غور و فکر کے ساتھ تحقیق کی ہے۔ بہرحال اس کا درست مطلب کوئی نہیں جانتا کیونکہ یہی اللہ کی منشا ہے۔ یہ جاننے کے بعد ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ اللہ نے قرآن کی ابتدائی آیت کا ہی مطلب پوشیدہ رکھ دیا، کیوں؟ کئی علما کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم قرآن سیکھنے کے آغاز میں ہی پوری عاجزی کے ساتھ ہی یہ سمجھ لیں اور دل سے اقرار کر لیں کہ اس قرآن سے ہم اتنا ہی علم حاصل کریں گے جتنا اللہ کی طرف سے اجازت ہو گی۔ اور جو علم ہم تک پہنچانا مقصود نہیں ہو گا، وہ ہمیں نہیں مل سکتا۔
انسان فطرتاً ناشکرا ہے۔ جب اسے کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے، وہ اسے اپنا کمال سمجھتا ہے اور عموما اسے اپنے علم، مہارت اور محنت کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ نافع اور نقصان دہ علم کی تمیز کرنے سے بھی قاصر ہے۔ بعض دفعہ تو لوگ اس حقیقت کو ہی تسلیم نہیں کر پاتے کہ علم نافع یا نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس پر مزید تفصیل کے ساتھ ہم کل بات کریں گے۔
سورہ نِسا میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰهِ عَلَيۡكَ وَرَحۡمَتُهٗ لَهَمَّتۡ طَّآٮِٕفَةٌ مِّنۡهُمۡ اَنۡ يُّضِلُّوۡكَؕ وَمَا يُضِلُّوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَهُمۡ وَمَا يَضُرُّوۡنَكَ مِنۡ شَىۡءٍؕ وَاَنۡزَلَ اللّٰهُ عَلَيۡكَ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمۡ تَكُنۡ تَعۡلَمُؕ وَكَانَ فَضۡلُ اللّٰهِ عَلَيۡكَ عَظِيۡمًا ﴿۱۱۳﴾
اور اگر تم پر خدا کا فضل اور مہربانی نہ ہوتی تو ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کر ہی چکی تھی اور یہ اپنے ِسوا (کسی کو) بہکا نہیں سکتے اور نہ تمہارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور خدا نے تم پر کتاب اور دانائی نازل فرمائی ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھائی ہیں جو تم جانتے نہیں تھے اور تم پر خدا کا بڑا فضل ہے ﴿۱۱۳﴾
اللہ تعالی نے نبی کریم صلي الله عليه وسلم سے فرمایا کہ ان کو جو بھی علم عطا کیا گیا ہے، وہ اللہ کا اکرام ہے۔ قرآن میں جب اللہ تعالی نبی کریم صلي الله عليه وسلم سے مخاطب ہوتے ہیں، تو عموماً اس میں ہمارے لئے بھی پیغام ہوتا ہے۔ لہذا اگر َسرور کائنات کو یہ بتایا گیا ہے کہ انکو عطا کردہ علم محض اللہ کی طرف سے ایک نعمت اور اسکا فضل ہے، تو پھر ہم جیسے معمولی اور ناچیز بندوں کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہمارا بھی تمام علم و ہنر، ہماری کامیابیاں، ہماری دانائی، صرف اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ہیں اور اس میں ہمارا کسی طور کوئی کمال ہرگز نہیں۔
آخر میں ایک اور اہم نکتہ جو قرآن سیکھتے ہوئے مدنظر رکھنا چاہیے، وہ یہ کہ کیسے اور کیا سوالات ہیں جو جائز ہیں اور وہ کون سے سوالات ہیں جو اپنی حد سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ مختصراً، وہ سوال جو ہمیں نافع علم کی جانب لےجاتےہیں، اور وہ سوال جو ہمیں راستے سے بھٹکا دینے کا زریعہ بنتے ہیں، جس پر ہم کل انشاءاللہ بات کریں گے۔
اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم قرآن کو پورے خلوص، یقینِ کامل اور مثبت سوچ کے ساتھ سیکھ اور اور سکھا سکیں۔ اللہ ہمیں اپنی تمام کامیابیوں کو اللہ کی نعمت سمجھنے اور اسکا شکر گزار رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین