Categories: Ramzan Series 2019

Mehreen Farhan

[Ramzan, 9] Welcome to Day 9 of the Ramzan Series 2019.
We are narrating the story of Hazrat Maryam (e.s.) as told in Surah Aal-Imran. This is Part 1.
Disclaimer: We will only talk about what Quran tells us, and the scope is Surah Aal-imran. There are multiple places where Hazrat Maryam (e.s.) is mentioned, yet we will stick to this particular Surah.
Hazrat Imran (e.s.) was a very pious man. He was the imaam of haikal-e-sulemani (Solomon’s Temple). His wife was Hanna (e.s.).
Hanna was a very righteous woman who longed for a child. One day, she watched a bird feed its young and as she watched it, it stirred emotions in her also. With great humility, she whispered a prayer to Allah to bless her with a child also. Allah accepted her dua’a and she conceived very soon.
While Allah blessed her with this happy news, soon after, Hazrat Imran left to meet his Creator, leaving Hanna (e.s.) as a widow who was also expecting a child.
Hazrat Hanna was a woman of strong faith. She vowed to dedicate the newborn to Solomon’s Temple upon birth.
Allah says in the Quran, Surah Aal-Imran, ayat 35:
“[Mention, O Muhammad], when the wife of ‘Imran said, “My Lord, indeed I have pledged to You what is in my womb, consecrated [for Your service], so accept this from me. Indeed, You are the Hearing, the Knowing.”
Solomon’s Temple had many children who were pledged to it. They dedicated their life to worship and to taking care of the Temple all their lives.
At a time when Hazrat Hanna had become a widow, her coming child was to be her support of life and in times of loneliness. Her pledge to Allah showed she relied on Allah, rather than an offspring to be her support of old age. Secondly, this was a much awaited child and someone she had longed for.
Allah mentions in this ayah that she asked Allah to accept this pledge from her. This shows what a pious woman she was; even after offering the most precious thing she was blessed with, she was worried if Allah will accept it from her or not.
Given the nature of this kind of sacrifice, all the children that were pledge to the temple were boys.
But was Hazrat Hanna (e.s.) carrying a boy?
⭐️ TO BE CONTINUED…
What did we learn:
• Hazrat Hanna’s (e.s.) pure-of-heart dua’a was accepted by Allah
• Hazrat Hanna’s (e.s.) complete reliance on Allah despite being a widow
• Hazrat Hanna’s (e.s.) pledge of her unborn child to Solomon’s Temple
• Even after the pledge, she makes dua’a that Allah may accept her sacrifice
URDU TRANSLATION: Qudsia Huzaifa Jamali
[۹ رمضان ] رمضان سیریز کے نویں دن خوش آمدید.
آج ہم حضرت مریم ؑ کی کہانی پر بات کریں گے کہ جس کا ذکر سورہ آل عمران میں ہے.
انتباہ: ہم صرف قرآن میں موجود بیان پر بات کریں گے، خاص طور پر سورہ آل عمران سے منسوب. گو کہ مریمؑ کا تذکرہ متعدد جگہ کیا گیا ہے، مگر ہم اس مخصوص سورہ کے حوالے سے بیان کریں گے.
حضرت عمران ؑ ایک پرہیزگار انسان تھے. وہ ہیکل سلیمانی کے امام تھے. ان کی زوجہ کا نام حنّہؑ تھا.
حنہؑ ایک نیک عورت تھیں جنہیں اولاد کی شدید خواہش تھی۔ ایک دن انہوں نے چڑیا کو اپنے بچّے کو کھانا کھلاتے دیکھا اور اس نے انہیں جذباتی کردیا۔ انتہائی عاجزی سے انیوں نے خدا کے حضور اولاد کے لیے دعا کی۔ خدا نے دعا قبول کی اور جلد ہی وہ حاملہ ہو گئیں۔
ابھی تو خدا نے اُنہیں اس خوشخبری سے نوازا ہی تھا، کہ عنقریب حضرت عمران ؑاپنی بیوی اور متوقع اولاد کو اکیلا چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
حضرت حنّہ ؑمضبوط اعتقاد کی مالک تھیں۔ انہوں نے اپنے ہونے والے بچّے کو پیدائش کے بعد سلیمانی مندر کے لیے وقف کر دینے کا فیصلہ کیا۔
اللہ سورہ آلِ عمران آیت نمبر۳۵ میں ارشاد فرماتا ہے:
(وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے) جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے پیٹ میں ہے میں اس کو تیری نذر کرتی ہوں اسے دنیا کے کاموں سے آزاد رکھوں گی تو (اسے) میری طرف سے قبول فرما توتو سننے والا (اور) جاننے والا ہے ﴿۳۵﴾
دوسرے بھی کئی بچّے سلیمانی مندر کے لیے وقف تھے۔ انہوں نے تمام عمر مندر کی حفاظت اور خدمت کی قسم کھائی ہوئی تھی۔
جب حضرت حنّہ ؑ بیوہ ہوئیں تو آنے والا بچّہ اُن کی تنہائی اور عمر بھر کا سہارا تھا۔ اُن کا عہد اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت اُنہوں نے اولاد کے بجائے خدا کو اپنا سہارا مانا۔ مزید یہ کہ اس اولاد کے لیے اُنہوں نے کئی سال انتظار کیا تھا۔
خدا اس آیت میں واضح کرتا ہے کہ انہوں نے اپنے عہد کے باوجود بھی خدا کے حضور دعا کی کہ وہ اُن کی اس قربانی کو قبول کرے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کس قدر نیک خاتون تھیں کہ اپنی بہترین چیز خدا کی راہ میں دینے کے باوجود بھی اس بات کے لیے فکر مند تھیں کہ خدا اُن کی اس خدمت کو قبول کرے گا یا نہیں۔
اس قربانی کی نوعیت کے حوالے سے بات کریں تو مندر کی خدمت کے لیے جتنے بھی بچّے وقف کیے گئے تھے وہ سب لڑکے تھے۔
لیکن کیا حضرت حنّہ ؑبیٹے سے حاملہ تھیں؟
⭐️ جاری ہے۔۔۔
ہم نے کیا سیکھا:
· حضرت حنّہ ؑکی صاف دل سے مانگی گئی دعا مستجاب ہوئی۔
· حضرت حنّہ ؑنے بیوگی کی حالت میں بھی خدا پر بھروسہ رکھا۔
· حضرت حنّہ ؑنے اپنی اولاد کو مندر کے لیے وقف کردیا۔
· عہد کے باوجود بھی خدا کے حضور اپنی اس قربانی کی قبولیت کے لیے فکرمند رہیں۔

Editor's Pick