Mehreen Farhan

Welcome to Day 8 of the Ramzan Series 2020. We are the Hijri 1441 of the Islamic calendar.

Today we will talk about what the word “kaafir” means.

Lately the word kaafir is used very carelessly, with people labeling others with different beliefs, as kaafirs. It has an element of judgement attached to it now.

That is why, today I wanted to clarify the meaning of Kaafir in Quranic Arabic.

In classic Arabic, kaafir means a farmer who “hides” seeds deep in the ground, out of everyone’s sight.

Arabic is a very picturesque language so please visualize this meaning. Imagine a farmer, burying a seed in his land. When the seed is buried, no one can see it and it is out of everyone’s sight. That is how the word “kaafir” started being used by the Arabs as someone who hid the truth.

A kaafir hides the truth of tauheed and Islam not only from himself but he hides it (refer to the analogy of “burying the seed out of everyone’s sight”) it from others also by not following the ways of Islam. By his wrong doings and evil actions, he bears witness that his own wayward ways are better than that of Islam, hence “concealing” the truth from others also, becoming a source of misguidance from them also.

Similarly, it should be mentioned that we shouldn’t consider ourselves in a position to label anyone as kaafir without knowing their belief system and what is in their hearts and neeyah.

May Allah make us of those who do not conceal the truth and who bear shahada on tawheed and Allah’s Deen. May Allah make us of those who always look for flaws in ourselves first.

Ameen sum ameen.

‎اس رمضان المبارک کے آٹھویں روز میں خوش آمدید۔

‎آج ہم لفظ “کافر” کے مطلب پر بات کریں گے۔

‎عموما یہ لفظ اپنے درست مفہوم سے بہت مختلف معنی میں اور بعض دفعہ بہت غیر ذمہ داری کے ساتھ بھی استعمال کیا جاتا ہے، مثلا ان لوگوں کے لئے جن کا ایمان یا عقائد ہمارے حساب سے مختلف ہوں۔ اس میں عموما حقارت، نفرت یا برتری کا احساس نمایاں ہوتا ہے۔

‎اسی وجہ سے آج ہم اس لفظ کی وضاحت قرآنی عربی کی روشنی میں کر رہے ہیں۔

‎قدیم اور خالص عربی میں، کافر کا لفظ اس کسان کے لیے استعمال ہوتا ہے جو بیج کو زمین میں بو دیتا ہے، گویا سب کی نظروں سے “چھپا” دیتا ہے۔

‎عربی زبان میں مشاہدے اور تصور کا بہت حد تک عمل دخل ہے۔ اوپر بیان کئے گئے مطلب کا بھی اگر تصور کیا جائے تو ذہن میں ایک ایسا کسان آتا ہے جو زمین میں بیج بو رہا ہے۔ بو دینے کے بعد اب یہ بیج سب کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اب کوئی اسے نہیں دیکھ سکتا۔ یہیں سے عربوں نے اس شخص کے لئے لفظ “کافر” کا استعمال شروع کر دیا جو حقیقت یا سچائی کو سب سے چھپا لیتا ہے۔

‎ایک کافر، توحید اور اسلام جیسی سچائی کو نہ صرف خود سے دور کر لیتا ہے، بلکہ اسلام کے راستے سے دوری اختیار کر کے دوسروں کو بھی اس راستے سے دور لے جاتا ہے۔ برائی کی راہ پر چل کر درحقیقت وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے کہ یہ راستہ اسلام کے بتائے ہوئے طریقے سے بہتر ہے۔ پھر جو لوگ اس کے نقش قدم پر چلتے ہیں، ان سے دراصل اسلام کی راہ اوجھل ہو چکی ہوتی ہے۔ یوں یہ شخص دوسروں سے حقیقت چھپا کر، ان کے لئے گمراہی کا زریعہ بن جاتا ہے۔

‎یہاں یہ بیان کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ ہمیں کسی بھی وجہ کو بنیاد بنا کر، کسی کو بھی کافر قرار دے دینے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ ایمان اور عقائد ہمارے دلوں میں ہوتے ہیں، ہماری نیت میں شامل ہوتے ہیں۔ اور دلوں کا حال، نیتوں کا احوال جاننے والا صرف اللہ ہے۔ لہذا کافر اور مومن کی پہچان کرنے کی قابلیت، حق اور اختیار بھی صرف اللہ کا ہی ہے۔

‎اللہ ہمیں اپنے دین اور توحید پر شہادت دینے والوں، حق بات کہنے والوں اور سچائی کو پھیلانے والوں میں شامل رکھے۔ اللہ ہمیں اپنے عیوب کو دوسروں کی برائیوں سے پہلے دیکھنے والا بنا دے۔

‎آمین

Editor's Pick